Pages

Tuesday, June 19, 2012

ضمیر کی آواز: چوتھی قسط, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
ضمیر کی آواز: چوتھی قسط

زاہدہ حنا

میجر کلاڈ ایتھر لے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرانے والے طیارے کا پائلٹ تھا۔ وہ ایک نوجوان پر جوش اور پوش امریکی تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ جمہوریت ، انسانیت، امن پسندی اور وطن پرستی ایسی اعلیٰ اقدار کی ‘‘حفاظت’’ کے لئے اسے ‘‘ننہا لڑکا’’ نامی ایک بم ایک شہر پر گرانا ہے اور واپس آجانا ہے۔ وہ اپنے نشانے پر پہنچا ،اس نے ایک نظر شہر کو دیکھا ،اپنے ساتھی کو اشارہ کیا ، بم طیارے سےجدا ہوا، طیارہ واپسی کے لئے مڑا تو میجر ایتھر لے نے نیچے پھیلے ہوئے شہر پر نظر کی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔ چند لمحوں کے اندر اندر وہ جیتا جاگتا شہر نابو د ہوچکا تھا۔ وہ اپنا ‘‘فرض’’ انجام دے چکا تھا۔ اس کے ساتھی اس بات پر پھولے نہیں سمار رہے تھے کہ انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیار کو سب سے پہلے استعمال کرنے کا اعزاز ا نہیں حاصل ہوا ہے جبکہ کلاڈ کا چہرہ زردتھا ، جبڑے بھنچے ہوئے تھے ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ننھے لڑکے تو اپنی شرارتوں سے لوگوں کو دل مو ہ لیتے ہیں، یہ بم کیسا ‘‘ننھا لڑکا’’ تھا جس نے چند سیکنڈ کے اندر اندرایک ہنستے بستے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔ وہ فوجی اڈے پر پہنچا تو ہیرو تھا ۔ اس کے ساتھی، اس کے اس سفر پر اسے مبارکباد دے رہے تھے ،فتح کا جشن منارہے تھے لیکن وہ چپ چاپ ایک طرف کو جابیٹھا اور پھر اس نے کئی دن اور کئی رات کسی سے کلام نہیں کیا۔

میجر کلاڈ ایتھر لے بیسوی صدی کی امریکی تاریخ کا وہ باضمیر انسان ہے جس نے 6اگست 1945کو ہی جان لیا تھا کہ سیاستداں اور جرنیل ‘‘قرض شناسی’’ اور ‘‘وطن سے وفاداری’’ کے نام پر اس سے ایک ایسے بھیانک جرم کا ارتکاب کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کے کرنے کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ جاگتا رہتا تو اس کی آنکھوں میں ایک شہر کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا منظر کھنچا رہتا اور سوتا تو اذیت کے جہنم میں جھلستےہوئے ہزاروں چہرے اسے اپنی طرف تکتے نظر آتے۔ ان کے کربناک چیخیں اس تک پہنچتیں اور وہ دیو انوں کی طرح سوتے سے اٹھ بیٹھتا ۔ انسانیت کا مجرم ہونے کا یہ احساس اسے دیمک کی طرح کھانے لگا ۔ تنگ آکر اس نے امریکی فضائیہ کی شاندار ملازمت ترک کردی اور پیٹ پالنے کے لیے معمولی نوکریاں کرنے لگا۔ ذہنی حالت بگڑی تو نفسیاتی معالجوں کے پاس گیا۔ ان ہی دنوں 1950میں امریکی صدر ٹرومین نے ایٹم بم سے کہیں زیادہ مہلک ہتھیار ‘‘ہائیڈروجن بم’’ بنانے کا اعلان کیا تو ایتھر لے پر ڈپریشن کا اتنا شدید دورہ پڑا کہ اس نے نیند کی گولیاں کھاکر خودکشی کی کوشش کی۔ دوسری مرتبہ اس نے اپنی کلائی رگیں کاٹ لیں لیکن بچالیا گیا ۔ اسی دوران وہ ہیروشیما کے ان ہسپتالوں کو وقتاً فوقتاً رقم بھیجتا رہا جہاں ایٹمی حملے کے متاثرین کا علاج ہوتا تھا۔ اس نے جاپانی ڈاکٹر وں، صحافیوں اور دانشوروں کو خط لکھے اور انہیں یہ باور کرانےکی کوشش کی کہ ہیرو شیما پر گرائے جانے والے بم کی ہولناکی اور تباہ کاری کی شدت سے وہ واقف نہ تھا۔ نادانستگی میں اس سے جس جرم کا ارتکاب ہوا اس کی اذیت نہ اسے دن کو چین لینے دیتی ہے اور نہ رات کو آرام کرنے دیتی ہے۔

http://newageislam.com/ضمیر-کی-آواز--پانچویں-قسط/urdu-section/d/2384


0 comments: