Pages

Wednesday, June 13, 2012

تثلیث ، توحید اور نسوانیت, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
تثلیث ، توحید اور نسوانیت
سید منصور آغا’لوگ اسلام کیوں قبول کرتے ہیں ؟‘ عنوان سے راقم الحروف کے مراسلے پر محترم ندیم الواجدی کے عالمانہ مکتوب (جدید خبر ۔۲۲؍جون) کے لئے شکر گزار ہوں کہ موصوف نے میری معروضات کو لائق اعتناجانا اور اپنی گرانقدر تحریر سے نوازا۔ جزاک اللہ ۔ اس میں موصوف نے اس موقف کا اعادہ فرمایا ہے کہ عیسائی اپنے عقیدہ تثلیث کے باعث مشرک ہیں۔یہ نازک موضوع ہے اور اس پر اظہارخیال کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔لیکن عالم کے سامنے اپنے اشکال کا اظہار ایک طالب علم کے لئے جائز ہی نہیں ، واجب ہے۔ حضرت شیخ بایزیر بسطامی کا قول ہے: علم کے معاملے میں اختلاف باعث برکت ہے کہ اس سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں : علم میں اختلاف نہ ہوتو دل اکتا جائے اور جینا دوبھر ہوجائے، ۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اختلاف کے فتنے سے محفوظ فرمائے اور اس کی برکات سے ہماری رہنمائی فرمائے۔آمین۔عقیدے اور عمل میں شرک کا معاملہ بڑا نازک ہے۔ اپنے تئیں انسان کیسا ہی راسخ العقیدہ موحد کیوں نہ ہو، کب چیونٹی حالانکہ ہماری نظر میں دوکافر ہے، مشرک ہے کہ نہ تو اس کا ایمان مکمل ہے اور تااعمال اسلامی ہیں۔ایک طرف تو رحمت خداوندی کا امنڈتا ہوا یہ ساگر ہے اوردوسری طرف ہم بند گان خدا کا شوق گردن پیمائی !میری اس خامہ فرسائی کے پس منظر میں میرا یہ وقف ہے کہ عقیدہ تثلیث کی گمراہی کے باوجود عیسائی موحد ہیں جس کی محترم مولانا ندیم الواجدی مدظلہ نے تردید فرمائی تھی ۔ تاہم موصوف نے اپنے مضمون بعنوان مذاہب شادیاں (۲۵جو) میں بجاطور پر یہ لکھا ہے کہ دور نبویؐ میں عیسائی موحد تھے ۔حالانکہ ا س وقت بھی قرآن کی وہ شہادت موجود تھی جس کو جناب نے سورۃ المائدہ(۱۱۶) سے راقم الحروف کے مراسلہ کے جواب میں نقل فرمایا ہے اور جس میں عیساؤں کے حضرت عیسیؑ اور حضرت مریم ؑ کو خدا کے علاوہ معبودقرار دینے پر تنبیہ فرمائی گئی ہے (ترجمہ اور جب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو بھی خدا کے علاوہ دومعبود قرار دو۔(عیسیٰ فرمائیں گے) میں آپ کو شرک سے منزہ سمجھتا ہوں۔تثلیث کے باوجود عیسائیوں کو (بلکہ تمام اہل کتاب کو ) موحد سمجھنے کا ایک قرینہ خود قرآن پاک میں موجود ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ جیسا کہ اوپر مثالیں پیش کی گئیں ، یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ موحد کسی ایسے فکر یا عمل میں گرفتا ہوجائے ، جس میں شرک کا پہلو نکلتا ہو، لیکن یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ کسی کو بھی وہ ان ثمرات سے محروم نہیں کرے گا جو موحد کے لئے مخصوص ہیں۔ دین محمدی ہمیں حسن ظن کی تلقین (محصنات) بھی تمہارے لئے حلال ہیں، خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔سورہ البقرہ(۲۲۱)میں حکما مشرک عورتوں سے نکاح سے روک دیا گیا ہے اور المائدہ (۵) میں ان اقوام کی محصنات کو ’پاک‘ قرار دے دیا گیا ہے، جن کو نزول قرآن سے پہلے کتاب دی گئی ہے اوران سے نکاح کی رخصت مرحمت فرمادی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ اہل کتاب کی ان عورتوں کو جو ہماری نظر میں مشرکہ (ناپاک) ہیں، اگر قرآن حکیم صاف الفاظ میں ’پاک‘ اور ’محصنات‘ قرار دے رہا ہے ، تو ہماری اس جرأت اصرار کا کیا جواز اور کیا مطلب ہے جو ان کے مشرکہ ہونے کے بارے میں کیا جاتا ہے؟ کیا اس رخصت سے یہ واضح نہیں ہورہا ہے کہ چاہے اہل کتاب اپنے فکر وہ عمل میں کتنے ہی گمراہ کیوں نہ ہوگئے ہوں، ان کا شمار دیگر مشرکین (مثلاً مشرکین عرب یا مشرکین ہند) کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا؟ ( اور ان کو یہ شرف صرف اس لئے حاصل ہے کہ اصلاً دوموحد ہیں۔)
http://newageislam.com/urdu-section/تثلیث-،-توحید-اور-نسوانیت/d/1520

0 comments: