Pages

Saturday, June 16, 2012

بابری مسجد کی شہادت ایک منظّم سازش کا نتیجہ, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
بابری مسجد کی شہادت ایک منظّم سازش کا نتیجہ

ظفر آغا

‘‘بابری مسجد انہدام منصوبہ بند سازش ،بقول لبراہن ،اٹل بہاری اوجپتی ،اڈوانی او رجوشی کے ساتھ شریک’’۔ جی ہاں! یہ انڈین ایکسپریس اخبار کی کل صبح کی سرخی ہے جو اس نے لبراہن کمیشن رپورٹ کا خلاصہ چھاپتے ہوئے لگائی ہے اور بقول انڈین ایکسپریس بابری مسجد کی شہادت کوئی انجام حادثہ نہیں ،بلکہ ایک انتہائی منظّم سازش تھی اور اس سازش میں صرف اڈوانی اور اجپئی جیسے لوگ اجودھیا میں موجود تھے‘‘ ہی شامل نہیں تھے، بلکہ اس سازش میں بی جے پی کے سب سے لبرل لیڈر اٹل بہاری واجپئی بھی نزدیک تھے۔ اخبار انڈین ایکسپریس اس اخبار میں لکھتا ہے ‘‘جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کمیشن نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کوموجود حزب مخالف کے پارلیمانی لیڈر لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی اور دوسرو ں کو 6دسمبر1992میں بابری مسجد گرانے کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ’’ آگے یہی اخبار ان تینوں بی جے پی بھگتوں کے بارے میں کہتا ہے:‘‘ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان حضرات کو (پہلے سے) اجودھیا میں ہونے والے حادثے کی کوئی خبر نہیں تھی یا یہ حضرات اس معاملے میں معصوم ہیں’’.....

جی ہاں! آخر وہ بات جو ہر ذی ہوش ہندوستانی اچھی طرح سمجھتا تھا، اب اس بات پر باقاعدہ سرکاری مہر ثبت ہونے والی ہے۔ ہر کوئی اور بالخصوص مسلمان یہ بات اچھی طرح جانتے او ر سمجھتے تھے کہ 6دسمبر 1992کوبابری مسجد کسی ہندو مجمع کے غصے کے سبب نہیں گری ، بلکہ بابری مسجد کو گرانے کا آر ایس ایس نے باقاعدہ ایک منصوبہ بنایا تھا او ربابری مسجد اسی منصوبے اور سازش کے تحت گرائی گئی تھی۔ دنیا اس بات سے بھی بخوبی واقف تھی کہ بابری مسجد گرانے کی اس سازش میں لال کرشن اڈوانی او ر مرلی منوہر جوشی جیسے بی جے پی کے لیڈر شامل تھے، لیکن ایک بہت بڑا طبقہ ابھی تک یہ یقین کرتا تھا کہ اٹل بہاری واجپئی بابری مسجد گروانے کے سازش میں شامل نہیں تھے، لیکن لبراہن کمیشن رپورٹ ک جو اقتباس کل انڈین ایکسپریس اخبار میں چھپے ہیں اس سے اب یہ ظاہر ہوگیا کہ بابری مسجد گروانے میں واجپئی بھی برابر کے شریک تھے اور بقول لبراہن کمیشن واجپئی کو بھی اس معاملے میں معصوم نہیں مانا جاسکتا ہے۔

http://newageislam.com/urdu-section/بابری-مسجد-کی-شہادت-ایک-منظّم-سازش-کا-نتیجہ/d/2135



0 comments: