Pages

Sunday, June 17, 2012

ساحر لدھیانوی : کا میاب شاعر، ناکام عاشق, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
ساحر لدھیانوی : کا میاب شاعر، ناکام عاشق

انیس امروہوی

آؤ کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے ......

کل کے لئے بننے والا وہ مرد مجاہد ،وہ فولادی ارادوں والا انسان، جس نے کبھی حالات سے ہار نہیں مانی، جس نے انتہائی مایوسی اور کشمکش کے دنوں میں بھی امید کی روشنی اپنے دل ودماغ میں بسائے رکھی، اب ایک ایسے خواب میں ڈوبا ہوا ہے جس کی تعبیر وہ کسی سے کبھی معلوم نہ کرسکے گا۔

ساحر لدھیانوی کے دادا فتح محمد لدھیانوی کے ایک بہت بڑے رئیس زمیندار تھے۔ ساحر لدھیانوی کے والد کا نام چودھری فضل محمد تھا۔ چودھری فضل محمد نے 1920میں ایک معمولی خاندان کی لڑکی سردار بیگم سے نکاح کرلیا جبکہ ان کی پہلے سہی کئی بیویاں موجود تھیں ۔مگر وہ اپنے علاقے کے ایک بڑے جاگیر دار تھے او رکئی کئی بیویاں رکھنا ان کے لئے بڑی شان وشوکت کی بات تھی۔ سردار بیگم کشمیری نسل کی تھیں۔ اس طرح 8مارچ 1921کو سردار بیگم سے جو بیٹا پیدا ہوا ، چودھری فضل محمد نے اس کانام عبدالحئی رکھ دیا۔ چند برسوں کے بعد ہی سردار بیگم کا اپنے شوہر فضل محمد سے جھگڑا ہوگیا اور وہ عبدالحئی کو ساتھ لے کر اپنے بھائیوں کے گھر چلی گئیں ۔ اس وقت عبدالحئی کی عمر صرف سات برس تھی جب چودھری فضل محمد نے اس کو اپنی سرپرستی میں لینے کے لئے عدالت میں درخواست لگادی ۔ عدالت میں جب عبدالحئی سے پوچھا گیاکہ وہ والدین میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو اس نے اپنی کم سخن ماں کی طرف اشارہ کردیا اور اس طرح عبدالحئی ہمیشہ کے لئے اپنےباپ سے دستبردار ہوکر اپنی ماں کے حصہ میں آگیا۔

شہر لدھیانہ ،جسے عبدالحئی کے مولد ہونے کا فخر حاصل ہے، عبدالحئی نے جب اس شہر کے تہذیبی اور سماجی ماحول میں شعور کی آنکھیں کھولیں تو وہاں ایک طرف زوال یافتہ جاگیر ادر یت کی فرسودہ باقیادت تھیں اور انگریزی سامراج کے زیر سایہ ایک نیم سرمایہ دارانہ صنعتی نظام تشکیل پارہا تھا، اور دوسری طرف بے زمین کسان تھے جنہیں بھر پیٹ روٹی بھی مشکل سے میسر آتی تھی۔ عبدالحئی کےذہن پر اس سب کا تاثر بچپن سے ہی تھا۔

لدھیانہ کے خالصہ اسکول میں 1928میں عبدالحئی کا داخلہ ہوگیا اور جب 1937میں وہ ہائی اسکول کر کے انٹر میں داخل ہوا تو شعر وشاعری کی طرف راغب ہوگیا او رپہلا شعر کہہ کر عبدالحئی ساحر لدھیانوی بن گیا ۔ یہاں اس کی ادبی تربیت ہریانہ کے ایک استاد فیاض ہریانوی نے کی، جو خود بھی شعر وشاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ 1939میں انٹر پاس کرنے کے بعد عبدالحئی عرف ساحر لدھیانوی نے تعلیمی سلسلہ مزید جاری رکھتے ہوئے لدھیانہ کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ شعر وشاعری سے شوق رکھتے ہوئے ساحر نے یہاں سیاست اور معاشیات کے مضامین پڑھنے میں بھی خاصی دلچسپی دکھائی ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہندوستان کی تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی اور انگریز بھی اپنے ظلم وجبر کا استعمال اسلحہ اور سازشوں کے زور پر دل کھول کر کررہے تھے ۔ ادھر باپ کی ظالمانہ روش سے ساحر کے دل میں جاگیر دارانہ نظام کے تئیں نفرت کا بیج پہلے ہی بویا جاچکا تھا ۔لہٰذا یہ سب چیزیں ساحر کی شاعری میں اس طرح گھل مل گئیں کہ اس کا رومان بھی حالات حاضرہ کی بھٹی میں تپ کر اس کے شعروں میں ڈھلنے لگا۔

http://www.newageislam.com/ساحر-لدھیانوی---کا-میاب-شاعر،-ناکام-عاشق/urdu-section/d/2071



0 comments: