Pages

Saturday, June 16, 2012

گاندھی جی کی زخمی بکری, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
گاندھی جی کی زخمی بکری

فیروز بخت احمد

بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ گاندھی جی شستہ اردو تولکھتے ،بولتے اور پڑھتے تھے ہی ،عربی بھی وہ جانتے تھے اور فارسی کا بھی انہیں علم تھا کیونکہ اکثر سیاسی محفلوں میں وہ فارسی اشعار وکہاوتوں کا استعمال کیا کرتے تھے ۔اردوکلچر یا اسلامی اقدار سے قربت مولانا آزاد سے قربت کا نتیجہ تھی۔

کچھ لوگوں کےنزدیک گاندھی جی سیاستداں ہو ں گے ۔کچھ لوگوں کے لیے وہ فلسفی ہوں گے ،کچھ لوگوں کے لیے وہ آزادی ہند کے جاں نثار سپاہی ہوں گے اور کچھ لوگوں کے لیے و ہ محض ایک اچھے انسان ہوں گے ۔سیاست میں رہتے ہوئے انسان کا اچھا انسان بنے رہنا کچھ دشوار سا عمل ہے۔مگر گاندھی جی کی یہ خوبی تھی کہ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے ایک اعلیٰ انسان تھے ۔

بقول مولانا آزاد اچھا انسان ہونا ایک ایسی عظمت ہے جو بڑی عام سی دکھائی دیتی ہے مگر کم ہی خوش نصیبوں کےحصے میں یہ خصلت آتی ہے ۔واقعی گاندھی جی بہت اچھے انسان تھے۔ ایک مرتبہ جب بنگال کے نواکھالی علاقے میں خطرناک قسم کے ہند و مسلم فسادات چل رہے تھے تو گاندھی جی گھر گھر جاکر خیر سگالی کا پیغام دےرہے تھے ۔ یہ واقعہ راقم کے والد نورالدین احمد مرحوم کے پاس کلکتہ میں مولانا کے غیر مطبوعہ تحریری خزانہ سے اخذ کیا گیا ہے ۔جب بڑا لال بازار کے ایک گھر کے زینہ سے گاندھی جی اتر ے تبھی انہیں ایک جوشیلے بنگالی مسلمان نے پکڑ لیا اور گردن گرفت میں کر کے گلا دبا نا شروع کردیا ۔ان دنوں سیکورٹی گارڈ نہیں ہوا کرتے تھے ۔ اس سے قبل کہ مولانا آزاد جو کہ اس وقت ان کے ساتھ تھے اور دیگر اکابرین جیسے مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی ،مولانا حفظ الرحمٰن وغیرہ بھی ان کےساتھ تھے، یہ کوشش کرتے کہ مولانا کو چھڑائیں ،وہ شخص بولا ۔‘‘کوئی آگے نہیں آئے گا اس کافر کی کیسے ہمت ہوئی کہ یہ یہاں آگیا!’’ یہ کہہ کر اس نےگاندھی جی کو دھکا دیا، وہ دھان پان تو تھے ہی گرگئے ۔مگر گرتے ہوئے انہوں نے جب سورۃ فاتحہ پڑھی تو سب دنگ رہ گئے ۔ یہ دیکھ کر وہ بنگالی مسلمان بھی حیران رہ گیا اور دشمنی تھوک کر تاحیات ان کا چیلا بن گیا۔ اس کا نام تھا عبدالرحمٰن منڈل ۔

http://newageislam.com/urdu-section/گاندھی-جی-کی-زخمی-بکری/d/1832


0 comments: