Pages

Friday, June 15, 2012

جدید تعلیم اور مسلمان, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
جدید تعلیم اور مسلمان

آج کا مسلمان مذہبی فرقہ پرستی پر تو غورکرتا ہے لیکن یہ نہیں سوچتا کہ وقت کا کیا تقاضہ ہے۔ مسلم مسائل کا واحد حل تعلیمی منصوبہ بندی میں پنہاں ہے جس پر چھائے ہوئے گردوغبار کو ہمیں صاف کرنا ہے۔ ان حالات میں کچھ دانا لوگ جن میں سرسید احمد خاں سرفہرست ہیں ، گہرے غور وخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ قوم کی ترقی اور مسائل کا حل جدید تعلیم سے ہی نکالا جاسکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سرپرقرآن کریم، دائیں ہاتھ میں دینی تعلیم اور بائیں ہاتھ میں جدید تعلیم کا پرچم لے کر آگے بڑھتے رہو۔ ان کا مقصد تھا کہ تعصب ،احساس کمتری، کم ہمتی اور جہالت کا مسلم سماج سے خاتمہ ہوسکے ۔ اس لئے انہوں نے تعلیم کو نہ صرف عام کرنے کی کوشش کی بلکہ اسے محدود کرنے کی بھی مخالفت کی اور تعلیم نسواں پر خصوصی توجہ دی جس کے نتیجے میں نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام میں انقلاب برپا ہوگیا ۔ انہیں کافر اور مرتد ہوجانے کے طعنے سننے پڑے ، ان کے خلاف فتوے جاری ہوئے انہیں عیسائی اور برطانوی حکومت کا تنخواہ دار کہا گیا ۔ لیکن انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور قوم کے لئے قوم ہی کے ہاتھوں ایک مدرسۃالعلوم قائم کیا جو کہ علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کی شکل میں آج بھی ملک وقوم کی نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ممتاز ہے۔

اسی تحریک کے پیش نظر قوم کے کچھ بیدار مفز افراد نے جن میں ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر عابد حسین وغیرہ شامل ہیں 1920میں دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی جو آج ایک مکمل یونیورسٹی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ان دونوں اداروں نے قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ دونوں ادارے صرف اور صرف مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے قائم کئے گئے تھے لیکن ان کے دروازے دوسری اقوام کے لئے بھی کھلے ہیں اور دوسری اقوام اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں ان سے فائدہ اٹھارہی ہیں بلکہ میڈیکل ،انجینئر نگ اور دیگر اعلیٰ کورسز میں مسلمانوں کی تعداد دوسری اقوم سے کم ہے۔

http://newageislam.com/urdu-section/جدید-تعلیم-اور-مسلمان-/d/1685

0 comments: