Pages

Thursday, June 14, 2012

جدید خار جیت, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
جدید خار جیت

جدید خوار ج کون ہیں؟ کہاں، کب اور کیسے پیدا ہوئے؟ ان سوالات کا جواب تعین کے ساتھ دینا مشکل ودشوار بھی ہے اور اس سے بہت سے آبگینوں کے ٹوٹ جانے کا خوف بھی ہے۔ ویسے یہ طے ہے کہ قدیم خوارج جمہوریہ کے موقف وطریق کے مخالف ایک متشدد جماعت تھی، حضرت علی نے جس کا خاتمہ کر کے امت کو ایک فتنۂ عظیم سے محفوظ کیا۔ اس تناظر میں جدید خوارج کا جائزہ لیجئے تو ان کے بارے میں بھی یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جدید خوارج بھی جمہور کے موقف وطریق کے خلاف ایک متشدد جماعت ہیں۔ البتہ جدید خار جیت کو ہم قدیم ابتدائی خارجیت کی طرح کسی ایک لڑی میں نہیں پروسکتے ،بلکہ جس طرح قدیم خوارج بعد میں مختلف فرقوں اور جماعتوں میں بٹ گئے تھے ، جو جزوی اور فروعی مسائل میں مختلف ہوتے ہوئے بھی کچھ خاص مسائل مثلاً تکفیر علی ومعاویہ وغیرہ میں مشترک تھے، اسی طرح جدید خوار ج بھی مختلف شکل اور رنگ میں پائے جاتے ہیں،مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود بعض امور مثلاً جارحیت وعسکریت پسندی وغیرہ قدر مشترک کے طور پر ان میں پائے جاتے ہیں ۔ جدید خوارج میں ایک قدر مشترک دینداری ہے۔ خاکم بدہن! ہم دینداری یااتباع شریعت کے خلاف لب کشائی کا تصور نہیں کرسکتے ، یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جدید خارجیت کی کوئی شکل شاید ایسی نہیں مل سکتی جو دین داری اور اتباع احکام شرع میں تساہل برتنے والی ہو۔ بلکہ وہ اس معاملے میں تصلب بلکہ تشدد وتطرف پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ قدیم خارجیت کے اندر بھی وہ و صف بطور قدر مشترک تھا ، اسی لیے عبدالکریم شہرستانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ‘‘ یہ وہی لوگ تھے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ان کی نمازوں اور روزوں کو دیکھ کر تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھو گے’’۔جدید خوارج میں دوسرا صف مشترک یہ ہے کہ ان کی سوچ پر بھی سیاست و حکومت کا غلبہ ہے اور قدیم خوارج کی طرح یہ بھی ایک طرح سے متطرفانہ سیاسی نظریے پر قائم ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دین کا سیاست سے کوئی رشتہ نہیں، یاسیاست مذہب سے باہر کی کوئی شئے ہے، مسئلہ سیاست میں جدید خوارج سے جمہورامت مسلمہ کا اختلاف صرف دوبنیادوں پر ہے۔ پہلی شئے یہ ہے کہ جمہوریت سیاست کو مذاہب کا حصہ سمجھتے ہیں جب کہ جدید خوارج قولانہ سہی ،عملی طور پر مذہب کو سیاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔


0 comments: