Pages

Friday, June 15, 2012

حضرت علیؑ کا طرز جہاں بانی, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
حضرت علیؑ کا طرز جہاں بانی

علی ظہیر نقوی

21رمضان تاریخ اسلام میں انسانیت کے اس عظیم انسان کا روز شہادت ہے جسے اس کی حق پسندی وعدالت کے سبب 40ہجری میں محراب مسجد کوفہ میں دوران نماز فجر زمانہ کی دہشت گرد باطل پرست طاقتوں کے ذریعہ شہید کردیا جاتا ہے ۔ مسجد کوفہ میں شہادت سے ہم آغوش ہونے والے انسانی تاریخ کے اس انسان کا مل کو زمانہ علی مرتضیٰ شیرخدا کے نام سے جانتا ہے۔ راہ خدا میں شہادت جیسی عظیم نعمت عاشقان راہِ خدا کی معراج ہوا کرتی ہے یہی سبب ہے ضربت شہادت سے دوچار ہونے کے بعد تاریخ اسلام وانسانیت کے محسن علی ابن ابی طالب کے منہ سے جو تاریخی جملہ نکلا تھا وہ یہی تھا’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا ‘‘۔

وصی رسوال ؐ امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی مثال زندگی نصرت حق وعدالت کا ایسا نمونہ ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے زمانہ قاصر ہے۔ عصر حاضرکی حکومتیں حقوق بشریت کے تحفظ اور غربت وافلاس کے دور کرنے کے بڑے بڑے دعوے اور نعرے تو بلند کرتی ہیں لیکن عملی طور پر حکومتوں کے ذمہ داران اس پر خود عامل نہیں ہوتے۔ حضرت علیہ السلام تاریخ اسلام کے وہ عظیم حاکم ہیں جو خود اپنی زندگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے عملی اقدامات کے ذریعے زمانہ کو بتایا کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کی زندگی اپنی رعایا کے کسی غریب ترین شخص کے مقابل کسی ہونی چاہئے۔

بقول ابن جوزی ’’حاکم ہوتے ہوئے بھی آپ اپنے اونٹوں کی مالش خود کرتے، گھر کے کام خود انجام دیتے ، جو کی سوکھی روٹی پر قناعت کرتے اور اسے بھی تھیلے میں سربہ مہر رکھتے تھے تاکہ ان کے بچے رحم کھا کر روٹی پر روغن نہ لگادیں‘‘۔آپ نے عثمان ابن حنیف کو ا یک خط میں اس کے کسی امیر شخص کی دعوت قبول کرنے پر سرزنش کرتے ہوئے لکھا ’’تیرے امام نے اس دنیا میں دو روٹیوں ایک بوسیدہ قمیض پر اکتفا کیا ہوا ہے مگر میں جانتا ہوں تو ایسا نہیں کرسکتا مگر تقویٰ می ں میری مدد کر‘‘آپ نے اپنی زندگی کو اپنی ملکت کے غریب ترین شخص کی سطح پر رکھا ہوا تھا تاکہ کسی غریب و محروم شخص میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ وہ دیکھ رہا ہے۔ کیا تاریخ ایسے حکمران کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے؟ حضرت علی ؑ اسلامی تاریخ کے ایسے حکمراں ہیں جن کے نزدیک ایسی حکمرانی جو حق عدل کا نظام قائم اور باطل کو زاء کرنے کے لئے نہ ہوتو وہ دنیا کی پست ترین شے سے بھی زیادہ پست تھی ۔ یہی سبب ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ؑ کے نزدیک اس حکومت کی قیمت جو عدل وانصاف قائم کرنے میں ناکام ہو ان کی پھٹی ہوئی جوتی سے بھی کمتر تھی جس میں سماج کے مظلوم و محرم طبقہ کو انصاف نہ مل سکے۔ وہ ابن عباس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ابن عباس تمہارے خیال میں میری اس پھٹی ہوئی جوتی کی قیمت کی ہے‘‘ ابن عباس نے کہا اس کی قیمت ہی کیا ، کچھ نہیں۔ حضرت علی ؑ نے فرمایج’’یہ جوتی مجھے تم لوگوں کی حکومت و سلطنت سے زیادہ عزیز ہے اگر اس میں کسی کا حق قائم نہ کر سکوں ‘‘۔

http://newageislam.com/urdu-section/علی-گڑھ-مسلم-یونیورسٹی--انکوائری-کی-حقیقت/d/1700


0 comments: