Pages

Tuesday, June 19, 2012

ضمیر کی آواز: تیسری قسط, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
ضمیر کی آواز: تیسری قسط
زاہدہ حنا
‘‘مجھے آج بھی وہ دن پوری طرح یاد ہے۔ میں اسکول میں پڑھتا تھا ۔صبح سویرے میری ماں نے مجھے بہن کو کھانا پہنچانے کےلیے کہا ۔ میں نے انکار کردیا ۔میری ماں نے مجھے بہت برا بھلا کہا۔ بادل ناخواستہ میں نے کھانا لیا اوریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا ۔ میں ابھی اسٹیشن پر پہنچا ہی تھا کہ سائرن بجنے لگا ۔میں بھاگا بھاگا گھر واپس پہنچا ۔میرا خیال تھا کہ حملے کی خبر سن کر ماں مجھے بہن کے پاس نہیں بھیجے گی ۔ ماں نے مجھے ڈانٹ ڈپٹ کر دوبارہ بھیج دیا ۔ میں اسٹیشن کے بینچ پر بیٹھا ریل گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ اچانک تیز روشنی کا ایک جھما کا ہوا ایک لمحے کے لئے ہر چیز نیلاہٹ مائل زردی چھا گئی۔ چندلمحوں کے لئے میری آنکھیں چندھیاں گئیں اور ہم نیم بیہوش ہوگیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ہر چیز مسخ ہوچکی ہے ۔ اس روشنی کے فوراً بعد ایک زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی۔ مجھے لگا کہ جیسے کسی نے میرا معدہ چیر کرمیری انتڑیاں باہر نکال لی ہیں۔ اس روشنی اور دھماکے نے بڑی بڑی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنا ڈالیں ۔ جس جگہ پر میں کھڑا تھا وہ بم گرنے کے مقام سے تقریباً سات کلو میٹر کے فاصلے پر تھی لیکن اس کے باوجود دھماکے کا اثر ایسا تھا کہ اس نے مجھے ہوا میں اچھال دیا۔ یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہوگیا ۔پھر مجھے اپنے گالوں پر تپش محسو س ہوئی ۔میں نے اوپر دیکھا کہ نارنجی رنگ کی لہروں کی صورت میں روشنی اور تپش چاروں جانب پھیل رہی ہے۔ میں ایک بینچ کے نیچے چھپ گیا۔ اسی آگ اور تپش کے بیچ میں نے دو جنگی جہاز دیکھے جن سے یہ ایٹم بم گرایا گیا تھا۔ میں گھر پہنچا تو میری ماں بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔ علاقے کے سبھی لوگ اکٹھے ہوچکے تھے۔کسی کو معلوم نہیں تھا کہ دراصل ہوا کیا ہے۔ اسی اثنا میں ہمیں کچھ لوگ اپنی طرف آتے ہوئے دکھائی دیے۔ یہ لوگ بھاگے چلے آرہے تھے ۔ہرکوئی بری طرح زخمی اور جھلسا ہوا تھا۔ ہمارے قریب پہنچ کر تقریباً سبھی گر پڑے ۔کوئی سر مررہا تھا، کوئی پانی مانگ رہا تھا کوئی چیخ رہا تھا اور کوئی خاموش کھلی آنکھوں کے ساتھ آسمان کی جانب دیکھے جارہا تھا ۔ ہم لوگ دہشت کے عالم میں انہیں بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ اچانک میری ماں نےمجھ سے پوچھا کہ میری بہن کہاں ہے ۔ وہ بھی اسوقت شہر میں تھی۔
http://newageislam.com/urdu-section/ضمیر-کی-آواز--تیسری-قسط/d/2375

0 comments: