Pages

Tuesday, June 19, 2012

ضمیر کی آواز: پانچویں قسط, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
ضمیر کی آواز: پانچویں قسط

زاہدہ حنا

پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو آئین اسٹائن امن کے لیے لڑرہا تھا جب کہ اس کے ساتھی پروفیسر ،سائنسداں اور اسکالر جنگی جنون کے سیلاب میں بہہ چکے تھے۔ اس موقع پر آئن اسٹائن نے کھل کر جنگ کی مخالفت کی اور اسے ‘‘فریب کی وبا’’ سے تشبیہہ دی۔ آئین اسٹائن کے ان خیالات کو جرمنی میں شدید ناپسندید گی کی نظر سے دیکھا گیا اور یہ اس کی سوئس شہریت تھی جس نے اسے گرفتاری سےبچائے رکھا ۔ کچھ ایسا ہی حال اس کے دوست اور اس عہد کے عظیم فلسفی برٹرینڈرسل کا انگلستان میں تھا۔ وہ بھی جنگ کا بدترین دشمن تھا۔ اسے بھی برطانوی عوام ‘‘غدار’’ اور ‘‘بزدل’’ جیسے ‘‘خطابات ’’ سے نوازتے تھے۔

جنگ ختم ہوئی تو جرمنی میں آئن اسٹائن کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی، جس میں اس کے نظر یہ اضافیت کو بھی رد کرتے ہوئے باطل قرار دیا گیا ۔ یہ صورت حال اس کے ساتھیوں اور دوسرے پروفیسر وں کے لیے صدمے اور تکلیف کا سبب تھی۔ لیکن ا ن کی بزدلی آرے آئی اور وہ اس کے حق میں آواز اٹھانے کی ہمت نہ کرسکے۔ آئین اسٹائن کو ہجوم سے گھبرا ہٹ ہوتی تھی اور وہ لوگوں کو سامنا کرنے سے کتراتا تھا ۔ پھر وہی شخص اس زمانے میں نہ صرف جرأت و بے باکی کے ساتھ جلسوں سے خطاب کرنے لگا بلکہ اس نے ایسے تمام مقدمات میں بیانات دیے جو علمی حیثیت رکھنے والے مختلف اسکالرز پر صرف اس لیے چلائے جارہے تھے کہ وہ جرمن حکومت سے مختلف مؤقف اورنقطہ نظر رکھتے تھے۔

ہٹلر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی کہ آئن اسٹائن کو جان بچا کر جرمنی سے فرار ہونا پڑا۔ اس زمانے میں فاشزم کی مخالفت کرنے والے ادیبوں اور دانشوروں کی کتابوں کے ساتھ آئن اسٹائن کی کتابیں بھی جرمنی میں جلائی جارہی تھیں۔ اسی زمانے میں نازیوں نے آئن اسٹائن کے سر کی قیمت بیس ہزار مارک مقرر کی۔ وہ خود اپنی جان کی انتی بھاری قیمت پر حیران ہوتا رہا۔

جرمنی سے جان بچا کر نکلنے کے بعد وہ امریکہ چلا گیا اور پھر وہیں کا ہورہا۔1939میں کچھ سائنسدانوں نے آئن اسٹائن سے رابطہ کیا اور اسے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ امریکی صدر روز ویلٹ کو خط لکھے اور ان سے اصرار کرے کہ وہ ایٹم بم کی تیار ی کی طرف توجہ دیں کیو نکہ نازی جرمنی بھی ایٹم بم کی تیاریوں میں تیزی سے مصروف ہے۔صلح جو اور امن پسند آئن اسٹائن نے اس خوف سے کہ کہیں جرمنی جوہری ہتھیار بنانے میں پہل نہ کرجائے، اپنی زندگی کا وہ قدم اٹھایا جس کا قلق اس کے دل سے مرتے دم تک نہ گیا۔ اس کی تجویز کو مانتے ہوئے امریکی صدر نے ‘‘مین ہیٹن پراجیکٹ’’ کی منظوری دے دی، یہی وہ پروجیکٹ تھا جس نےدنیا کے پہلے ایٹم بم کو جنم دیا۔ یہ درست ہے کہ آئن اسٹائن نہ تو جوہری طبیعات پر کام کررہا تھا اور نہ اس نے ‘‘مین ہیٹن پروجیکٹ’’ کی کامیابی میں کوئی کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ اسی کی ترغیب پر یہ پروجیکٹ قائم ہوا اور اسی کے تحت 16جولائی 1945کو وقت سحر دنیا کا پہلا کامیاب ایٹمی تجربہ ہوا جس کی بنیاد پر وہ ایٹم بم تیار ہوئی جو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے اور جن کے گرائے جانے سے اس دنیا میں جوہری اسلحے کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا۔

http://newageislam.com/ضمیر-کی-آواز--پانچویں-قسط/urdu-section/d/2384


0 comments: