وزیر اقلیتی امور سلمان خورشید نے ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کوبہتر بنانے کے سلسلے میں اپنے حالیہ انٹرویوز میں جس فکر مندی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ حوصلہ افزا تو ہے، لیکن اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ جہاں چاہ نہ ہووہاں خوش کن وعدوں کی سرسبز شاداب فصل سے بھی کام نکالا جاسکتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے ارباب حکومت نے وعدوں کی بے ثمر فصل اگانے کے فن کو اوج ثریا تک پہنچادیا ہے تو یہ کچھ غلط نہیں ہوگا۔سلمان خورشید نے ریزرویشن کے مطالبے کو یکسر نظر انداز ،بلکہ مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو دیگر زیادہ بار آور امکانات پر توجہ قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو حسد، مخاصمت اور مزاحمت کے جذبات کو پروان چڑھا سکتا ہو۔ ان کے خیال میں ریزرویشن کے نتیجے میں مسلمانوں کے تعلق سے فضا معاندت ومخاصمت کے شراروں سے بھر جائے گی ،دوسروں میں مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوگا اور یہ مسلمانوں کے لئے خسارے کا سودا ثابت ہوگا۔
وزیر با تدبیر نے دوسری چیزوں کے علاوہ یہ مژدۂ جاں فزاں بھی سنایا ہے کہ نسبتاً جلد نتائج کی حامل کچھ اسکیموں کو انہو ں نے اپنی اولین ترجیحات میں شامل کررکھا ہے اور سچر کمیٹی کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں بھی وہ کو تاہ دست ثابت نہیں ہوں گے ۔سلمان خورشید نے لارڈ میکا لے کا ذکر خیر بھی کیا ہے، جس کا اولین مقصد تعلیم کی ترویج کے ذریعہ گور وں کی سرکار کے لئے کلرکوں کی فوج تیار کرنا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اپنے آپ کومیکالے کے دام سے آزاد کرلیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چپراسی سے کلرک بننا بہتر تو ہے لیکن وہ مسلمانوں کو چیف ایگزیکٹیو افسر کے مناسب پر بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسے انکار ہوگا اس بات سے کہ مسلمانوں کو اعلیٰ ملازمتوں میں بھی حسب حال جگہ ملے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ ملازمتیں تو دور رہیں انہیں توچپراسی اور کلرک کی ملازمت بھی آسانی سے نہیں مل پاتی ۔ اب تک جتنے سروے کرائے گئے ہیں ، جتنے کمیشنوں او رکمیٹیوں کی رپورٹیں سامنے آئی ہیں، ان سب میں یہ بات مشترک رہی ہے کہ سرکاری نوکریوں ،ترقیاتی اسکیموں اور تعلیم گاہوں میں انہیں جو نمائندگی مل رہی ہے وہ ان کی آبادی کے لحاظ سے بے حد کم ہے۔
http://newageislam.com/urdu-section/تیرے-وعدے-پر-جئے-ہم/d/1461
0 comments:
Post a Comment