Pages

Monday, June 18, 2012

یہ وقت قدیم اور جدید کی بحث میں الجھنے کا نہیں, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
یہ وقت قدیم اور جدید کی بحث میں الجھنے کا نہیں

پروفیسر اختر الواسع

1857میں سیاسی بساط الٹ جانے کے بعد ہمارے بزرگوں نے دور غلامی میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم سیاسی آزادی کھودینے کے باوجود اپنی تعلیمی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں گنوائیں گے اور اسی لئے 30مئی 1866کو دیوبند میں چھتہ والی مسجد میں انار کے درخت کے نیچے ایک طالب علم اور ایک استاد سے اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی جسے ہم ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانتے ہیں۔ اس سعی محمود کا آغاز جن دو افراد سے ہو ا وہ دونوں ہی محمود تھے۔ استاد ملا محمود اور شاگرد محمود حسن( جو بعد میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کے نام سے مشہور ہوئے)یہ اپنی تعلیمی آزادی اور خود مختاری کو انگریزیں کے اثر سے آزاد رکھنے کاپہلا کامیاب عملی نمونہ تھا ۔لیکن اب جب کہ صورت حال بدل گئی ہے اور آزاد ہندوستان میں جہاں مسلمان اب نہ حاکم ہیں نہ محکوم بلکہ اقتدار میں برابر کے شریک ہیں اور اس ملک کی تعمیر وترقی میں ان کی توانائیاں اور وسائل بھی پوری طرح صرف ہوتے ہیں۔ اس لئے آزادی کے بعد سے پہلے ہی سے ریاستی سطحوں پر کئی مدرسہ بورڈ قائم ہیں اور یقیناً ان کی کارکردگی اور نتائج توقعات کے مطابق نہیں ہیں لیکن یہ ان لوگوں کی کمی ہے جن کے ہاتھ میں ان کا نظم نسق ہے۔ اس میں خود ہماری ملی سطح پر بے حسی ،عمدہ دلچسپی او رلا پرواہی کو بھ دخل ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مریضوں کا علاج ہوتا ہے، پوسٹ مارٹم نہیں ۔ حکومت ہندنے مرکزی مدرسہ بورڈ کا جو تخیل اور تجویز پیش کی ہے اس کو لے کر بعض اہل مدارس جن میں ہمارے کچھ محترم اکابرین بھی شامل ہیں، شدومد سے مخالفت کررہے ہیں ۔ہمیں ان کی نیک نیتی پرکوئی شبہ نہیں ۔ لیکن خوگرمدح کو اگر تھوڑے سے گلہ کی اجازت دی جائے تو ان کی خدمت میں یہ ضرور عرض کرناچاہیں گے کہ سرکاری وسائل سےہمارے مکاتیب ومدارس ،ان سے وابستہ اساتذہ ،غیر تدریسی عملہ اگر چا ہیں تو انہیں کیوں نہ بہرہ مند ہونے دیا جائے۔ مرکزی مدرسہ بورڈ ایکٹ میں آپ کو یقیناً یہ حق اور اختیار ہوناچاہئے کہ آپ مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ سے الحاق کریں یا نہ کریں اور صرف یہی نہیں بلکہ اگر الحاق شدہ ادارے اپنے تجربہ کی بنیاد پر بعد میں مرکزی مدرسہ بورڈ سے ترک تعلق بھی کرنا چاہیں تو اس کی انہیں بھرپور اجازت ہونی چاہئے ۔ اس ایکٹ میں یہ بات بھی پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ شامل ہونی چاہئے کہ مکاتیب ومدارس کی خود مختاری ،ان کا انتظامی ڈھانچہ انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا جو ان کو قائم کرے۔ مزید برآں نصاب تعلیم میں علوم اسلامیہ کا تناسب ،معیار، مقدار ،ترجیحات او رانتخابات کا مکمل حق بھی ذمہ داران مکاتیب ومدارس ہی کو حاصل ہوگا۔ جہاں تک علوم جدیدہ کی نصاب میں شمولیت کا سوال ہے تو مکاتیب ومدارس کے طلبہ وطالبات کی ذہنی ساخت ، علمی ضروریات اور نظام الاوقات کو سامنے رکھ کر ماہرین تعلیم سے اس کو تیار کرایا جائے۔یہ بات بھی اس ایکٹ میں صاف ہوجانی چاہئے کہ سرکار مرکزی مدرسہ بورڈ سے ملحقہ مکاتیب ومدارس سے صرف اتنے ہی پیسوں کا حساب مانگیں گے جتنا کہ وہ (سرکار) ان کو بطور گرانٹ دے گی۔

http://www.newageislam.com/urdu-section/یہ-وقت-قدیم-اور-جدید-کی-بحث-میں-الجھنے-کا-نہیں/d/2029


0 comments: