Pages

Monday, June 18, 2012

سترہ جج اور 442 اراکین پارلیمنٹ, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
سترہ جج اور 442 اراکین پارلیمنٹ
حامد میر
عاصمہ جہانگیر کو سپریم کورٹ کے فیصلے میں آئین کی ان دفعات کے ذکر پر اعتراض ہے جو جنرل ضیا الحق کےدور میں پارلیمنٹ کے ذریعہ آئین میں داخل کی گئیں ۔ ان دفعات کو پارلیمنٹ کے ذریعہ آئین میں داخل کی گئیں ۔ان دفعات کو پارلیمنٹ کے ذریعہ آئین سےنکالا جاسکتا ہے لہٰذا ہم سب کو چاہئے کہ پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بھی اپنا کردار ادا کرے۔ پارلیمنٹ اس وقت تک کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کرسکتی جب تک 17ویں ترمیم ختم نہیں ہوتی اور پارلیمنٹ کے اختیارات ایوان صدر سے واپس نہیں آتے ۔17ویں ترمیم کے خاتمے کیلئے پیپلز پارٹی اور مسلم (ن) کے علاوہ دیگر جماعتو ں کو جلد از جلد کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سپریم کورٹ میں صرف17جج ہیں اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین کی تعداد تقریباً ساڑھے چار سو ہے۔ بہت سے کام ایسے جو پارلیمنٹ کرسکتی ہے لیکن پارلیمنٹ نہیں کررہی ۔این آر او کو مسترد کرنا پارلیمنٹ کا کام تھا لیکن پارلیمنٹ نے یہ کام نہیں کیا۔ اب جب سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں اپنا مختصر فیصلہ سنا دیا ہے تو تفصیلی فیصلے کا انتظار کئے بغیر کہا جارہا ہے سندھ کے ساتھ زیادتی ہوگئی ۔پیپلز پارٹی نے مہران بنک اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبلہ کیا ہے۔گزارشں یہ ہے کہ ایئر مارشل اصغر خان کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فروری 1997میں اس مقدمے کی سماعت شروع کی تھی جبکہ 20اپریل 1994کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر اس اسکینڈل کے کچھ کرداروں کو قومی اسمبلی میں بے نقاب کرچکے تھے ۔بعد ازاں پیپلز پارٹی کی حکومت نے 24جولائی 1994کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی سے ایک حلفیہ بیان بھی حاصل کرلیا جس میں انہوں نے وہ تمام نام گنوادیئے جن کو 1990اور 1993کے درمیان آئی ایس آئی نے مہران بینک اور حبیب بینک کے ذریعہ بھاری رقوم دیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جولائی 1994سے نومبر 1996تک کچھ نہ کرسکی حالانکہ مقدمہ درج کر کے ملزموں کے خلاف کارروائی کرنا کوئی مشکل کا م نہ تھا لیکن شاید پیپلز پارٹی فوج اور آئی ایس آئی کی ناراضگی سے ڈرتی رہی۔ نومبر 1996میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اصغر خان کی درخواست پر فروری 1999تک سماعت تقریباً مکمل ہوچکی تھی۔ لیکن نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی بھی اپنے عہدے پر نہ رہے اور یہ کیس سرد خانے میں چلا گیا۔
http://www.newageislam.com/-سترہ-جج-اور-442--اراکین-پارلیمنٹ/urdu-section/d/2271

0 comments: